۔۔۔۔۔جب القاعدہ تھی نا داعش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ان دنوں کا ذکر ھیکہ جب دنیا میں امن و آشتی کے زمزمے بہتے تھے ، عالمی دنیا پہلی و دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں انسانوں کو قتل کرنے کے بعد سکون سے بیٹھی تھی { مزید بربادی کے لئیے کچھ نہیں بچا تھا }
خیر ، ذکر تھا جب دنیا میں محبتیں عام تھیں ، کہتے ہیں کہ قومی ریاستوں کی تشکیل کے بعد اعلی اقدار و روایات کے حامل یورپ و امریکا نے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے اسرائیلی ریاست بنا ڈالی { اس پہ معترض ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے لبرل دوستوں کے مطابق مسلمان بھی یہی کیا کرتے تھے ، ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ مسلمان تو بقول آپکے جاھل و اجڈ ہیں یہ مہذب یورپ کب سے مسلمانوں والے کام کرنے لگا ؟؟؟} ، انہی دنوں اقوام متحدہ بولی کہ کشمیر کے عوام کو استصواب رائے کے زریعے ھند کیسا تھ رھنے ۔ خودمختار یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اختیار حاصل ھے ۔۔۔۔۔۔ یہ اور بات ھیکہ مہذب دنیا اس پہ بھی عمل در آمد نا کراسکی چلیں اسے بھی جانے دیں فضول معاملہ ھے ۔۔۔۔ اسی طرح کے ایک روشن و تاریخی دن صومالیہ میں امریکی افواج اتر گئیں اور سچی بات یہ ھیکہ اگر وہاں پاکستانی فوج کے جوان صومالیوں سے نا بھڑتے تو یقینا امریکی افواج کا نقصان کئی گنا بڑھ جاتا { امریکہ کو سوچنا چاھئیے کہ وہ ہمارے ساتھ بے وفائی کا مرتکب ھے جبکہ ہم آخر وقت تک دوستی نبھاتے ہیں } ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہی دنوں بوسینا شرقی ترکستان { سنگیانگ} سوڈان عراق وغیرہ وغیرہ میں لاکھوں انسان قتل کردئیے گئے ۔۔۔ سب کچھ مہذب دنیا کی ناک کے نیچے ہوتا رہا یہ اور بات ھیکہ دنیا میں امن تھا سکون تھا مزے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ اسلامی دنیا کے حکمران ان تمام مسائل کے حل کے لئے سرگرداں تھے دن رات انکی کوششوں کا محور و مرکز ان مقبوضات کی بازیابی ، علم و فن کی ترویج معاشی و سیاسی استحکام اور عوامی امنگوں کو پورا کرنے پہ مرتکز تھیں ۔۔۔ اسی کی پیروی میں اپنے پڑوسی افغانستان کے بادشاہ نے روس کی خواھش کیمطابق اسے اپنے ملک میں عسکری مداخلت کی اجازت دیدی ، پھر جو کچھ ہوا وہ سب مجھ سے بہتر جانتے ہیں
لیکن دنیا میں ہر طرف خوشیاں بکھری پڑی تھیں لوگ باہم اخوت و بھائی چارے سے رھتے تھے ، عجب رنگوں کی بہار تھی { جسمیں سرخ رنگ نمایاں تھا جو اہل نظر کی آنکھیں نم کر رھا تھا } ۔۔۔۔۔۔۔
دروغ بہ گردن راوی کہ انہی دنوں اسلامی ممالک کے کچھ شرپسند پر امن انداز میں اٹھے اور حکمرانوں سے انکی کرپشن مظالم اور اختیارات کے غلط استعمال سمیت کئی سلگتے مسائل پہ سوال اٹھانے شروع کردئیے ۔۔۔ لیکن حسب سابق و معمول انہیں دھشت گرد قرار دیکر جیلوں میں بند کیا گیا قتل کیا گیا بعضے ہمیشہ کے لئے لاپتہ ہوگئے انکی انتخابی کامیابی ناکامی میں تبدیل کی گئی ۔۔۔۔۔ لیکن اسکے باوجود دنیا میں کیف و مستی تھی سرور تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنہیں بنیاد پرست و انتہاپسند قرار دیا گیا انہوں نے مسلمانوں کے عالمی و علاقائی مسائل کے خاتمے کے لئے اچھے بچوں کیطرح اقوام متحدہ سمیت مہذب دنیا سے رجوع کیا ، بلاشبہ یورپ نے انہیں پناہ تو دی لیکن قوت و اختیار رکھنے کے باوجود انکے مسائل حل نا کئیے کیونکہ انکا یہ منشاء ہی نہیں تھا ساری کہانی ہی فریب کاری پہ مبنی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دن طویل تھے تو راتیں نا ختم ہونے والی ۔۔۔۔۔۔ ایسے میں جب ریاستوں نے اپنا کام چھوڑ دیا عوام کو جبر کی چکی میں پیس دیا تو پھر گروہ اتھے مجموعے بنے اور نائین الیون ہوگیا ۔۔۔۔۔ تب اچانک دنیا کو علم ہوا کہ خون کا بھی رنگ ہوتا ھے اسکا بھی ذائقہ ہوتا ھے { یہاں یہ بحث ہر گز نہیں کہ اسکا فائدہ یا نقصان کیا تھا } تب ایک بڑے دھشت گرد جسے دنیا شیخ اسامہ کے نام سے جانتی ھے ، نے کہا تھا کہ اگر دنیا تک ہماری آوازیں اور احتجاج پہنچتے تو ہمیں کبھی جہاز نا بھیجنے پڑتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تب عالمی دنیا کی مدد کے لئیے اسلامی ممالک کی افواج و حکومتوں نے انکا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور جنگ کا رخ جہادیوں اور اسلامی ممالک کی افواج کیطرف گھوم گیا ، جسمیں عوام و خواص سب ہی نشانہ بنے ۔۔۔ خون بہا اور زوروں پہ بہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالکل درست ۔۔۔۔۔۔ پھر القاعدہ بنی اور اسکی انتہائی شکل دولت اسلامیہ بھی ۔۔۔اندھا دھند جنگوں اور حملوں کا آغاز ہوا گناہ گار و بے گناہ سب ایک ہی پاٹ میں پستے گئے نیویارک ۔۔ لندن ۔۔۔میڈرڈ ۔۔۔پیرس ۔۔۔ مالی ۔۔۔ استنبول ۔۔۔ کابل ۔۔۔ اسلام آباد ۔۔ بغداد ۔۔۔ ریاض ۔۔ پھر سب ہی جلنے لگے آگ کی حدت گھروں تک پہنچ گئی یوں القاعدہ اور داعش بھی بن گئی
لیکن سنا ھیکہ ماضی کی دنیا بہت اچھی تھی تب شیر و بکری ایک گھاٹ سے پانی پیتے تھے ، دنیا میں بہار کے دلفریب رنگ ہر سو پھیلے ہوئے تھے ، مظلوم انسانوں کے مسائل مہذب یورپ و امریکا حل کر رھا تھا ،،، ہر طرف خوشخبریاں تھیں دنیا بہشت بن چکی تھی کہ پھر القاعدہ و دولت اسلامیہ بن گئی ۔۔۔۔۔۔
{ انسانیت کا چورن فروخت کرنے والوں سے عرض ھیکہ یہ ایک طنزیہ تحریر ھے میں ذاتی طور پہ ہر بے گناہ انسان کے قتل کی مذمت کرتا ہوں ، لیکن اس مذمت سے پہلے بہت سارے اگر مگر ہیں جنہیں پروان چڑھانے میں میرے بجائے مہذب اسلامی و غیر اسلامی ممالک کے حکمرانوں کا کردار ھے }
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے۔قاری کا نظریہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے ۔اسلئے بلا وجہ بحث سے گریز کی جائے۔
منجانب حافظ محمد اسفند یار